Tuesday, 4 March 2014

Munshi Premchand منشی پریم چند واردات - منشی پریم چند - گلی ڈنڈ



  ہمارے انگریزی خواں دوست مانیں یا نہ مانیں، میں تو یہی کہوں گا کہ گلی ڈنڈا سب کھیلوں کا راجہ ہے، اب بھی جب کبھی لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھتا ہوں تو جی لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے کہ انکے ساتھ جا کر کھیلنے لگوں۔ نہ لان (میدان) کی ضرورت ہے نہ مشن گارڈ کی، نہ نٹ کی نہ بلے کی، مزے سے کسی درخت کی ایک شاخ کاٹ لی، گلی بنائی اور دو آدمی بھی آ گئے تو کھیل شروع ہو گیا۔ ولایتی کھیلوں میں سب سبے بڑا عیب یہ ہے کہ انکے سامان بہت مہنگے ہوتے ہیں جب تک کم از کم ایک سو خرچ نہ کیجیئے، کھلاڑیوں میں شمار ہی نہیں ہو سکتا۔ یہاں گلی ڈنڈا ہے کہ بغیر ہینگ پھٹکڑی لگے چوکھا رنگ دیتا ہے لیکن ہم انگریزی کھیلوں پر ایسے دیوانے ہو رہے ہیں کہ اپنی سب چیزوں سے ہمیں نفرت سی ہو گئی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں ہر ایک لڑکے سے تین چار روپے سالانہ صرف کھیلنے کی فیس لی جاتی ہے، کسی کو یہ نہیں سوجھتا کہ ہندوستانی کھیلیں کھلائیں جو بغیر پیسے کوڑی کے کھیلے جاتے ہیں۔ انگریزی کھیل ان کے لیے ہیں جن کے پاس روپیہ ہے، بیچارے غریب لڑکوں کے سر پر یہ فضول خرچیاں کیوں منڈھتے ہو، ٹھیک ہے گلی سے آنکھ پھوٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے تو کیا کرکٹ سے سر پھوٹ جانے، تلی پھٹ جانے، ٹانگ ٹوٹ جانے کا اندیشہ نہیں رہتا؟ اگر ہمارے ماتھے میں گلی کا داغ آج تک لگا ہوا ہے تو ہمارے کئی دوست ایسے بھی ہیں جو بلے سے گھائل ہونے کا سرٹیفیکٹ رکھتے ہیں۔ خیر یہ تو اپنی اپنی پسند ہے۔

    مجھے گلی ڈنڈا سب کھیلوں سے زیادہ پسند ہے اور بچپن کی یادوں میں گلی ڈنڈا ہی سب سے زیادہ شیریں یاد ہے، وہ علی الصبح گھر سے نکل جانا، وہ درخت پر چڑھ کر ٹہنیاں کاٹنا اور گلی ڈنڈے بنانا، وہ جوش و خروش، وہ لگن، کھلاڑیوں کے جمگھٹے، وہ پدنا اور پدانا، وہ لڑائی جھگڑے، وہ بے تکلف سادگی جس میں چھوت اچھوت اور غریب امیر کی کوئی تمیز نہ تھی، جس میں امیرانہ چونچلوں کی غرور اور خود نمائی کی گنجائش ہی نہ تھی۔ اسی وقت بھولے گا جب گھر والے بگڑ رہے ہیں۔ والد صاحب چوکے پر بیٹھے ہوئے روٹیوں پر اپنا غصہ اتار رہے ہیں، اماں کی دوڑ صرف دروازے تک ہے لیکن ان کے خیال میں میرا تاریک مستقبل ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح ڈگمگا رہا ہے اور میں ہوں کہ پدانے میں مست ہوں، نہ نہانے کا خیال ہے نہ کھانے کا۔ گلی ہے تو ذرا سی مگر اس میں دنیا بھر کی مٹھائیوں کی مٹھاس اور تماشوں کا لطف بھرا ہوا ہے۔

    میرے ہمجولیوں میں ایک لڑکا گیا نام کا تھا، مجھ سے دو تین سال بڑا ہوگا، دبلا لمبا، بندروں کی سی پھرتی، بندروں کی سی لمبی لمبی انگلیاں، بندروں کی سی جھپٹ، گلی کیسی ہو اس پر لپکتا تھا جسطرح چھپکلی کیڑوں پر لپکتی ہے۔ معلوم نہیں اسکے ماں باپ کون تھے، کہاں رہتا تھا، کیا کھاتا تھا، پر تھا ہمارے گلی کلب کا چمپیئن، جس کی طرف وہ آ جائے اسکی حیثیت یقینی تھی، ہم سب اسے دور سے آتا دیکھ کر اسکا استقبال کرتے تھے اور اسے اپنا گوئیاں بنا لیتے تھے۔

    ایک دن ہم اور گیا دو ہی کھیل رہے تھے، وہ پدا رہا تھا میں پد رہا تھا لیکن کچھ عجیب بات ہے کہ پدانے میں ہم دن بھر مست رہ سکتے ہیں، پدنا ایک منٹ کا بھی سہا نہیں جاتا۔ میں نے گلا چھڑانے کے لیے وہ سب چالیں چلیں جو ایسے موقع پر خلافِ قانون ہوتے ہوئے بھی قابلِ معافی ہیں لیکن گیا اپنا داؤں لیے بغیر میرا پیچھا نہ چھوڑتا تھا۔ میں گھر کی طرف بھاگا، منت سماجت اور خوشامد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ گیا نے مجھے دوڑ کر پکڑ لیا اور ڈنڈا تان کر بولا۔

    "میرا داؤں دے کر جاؤ، پدایا تو بہادر بن کر، پدنے کے وقت کیوں بھاگے جاتے ہو؟"

    "تم دن بھر پداؤ تو میں دن بھر پدتا رہوں؟"

    "ہاں تمھیں دن بھر پدنا پڑے گا۔"

    "نہ کھانے جاؤں نہ پینے جاؤں؟"

    "ہاں میرا داؤں دیئے بغیر کہیں نہیں جا سکتے۔"

    "میں تمھارا غلام ہوں؟"

    "ہاں تم میرے غلام ہو۔"

    "میں گھر جاتا ہوں، دیکھوں تم میرا کیا کر لیتے ہو۔"

    "گھر کیسے جاؤ گے، کوئی دل لگی ہے، داؤں دیا ہے داؤں لیں گے۔"

    "اچھا کل میں نے تمھیں امرود کھلایا تھا، وہ رکھ دو۔"

    "وہ پیٹ میں چلا گیا۔"

    "نکالو پیٹ سے، تم نے کیوں کھایا میرا امرود۔"

    "امرود تم نے دیا تب میں نے کھایا، میں تم سے مانگنے نہ گیا تھا۔"

    "جب تک میرا امرود نہ دو گے میں داؤں نہ دوں گا۔"

    میں سمجھتا تھا انصاف میری طرف ہے، آخر میں نے کسی غرض کے لیے ہی اسے امرود کھلایا ہوگا، کون کسی کے ساتھ بے غرضانہ سلوک کرتا ہے، بھیک تک تو غرض کے لیے ہی دیتے ہیں، جب گیا نے میرا امرود کھایا تو پھر اسے داؤں لینے کا کیا حق حاصل ہے؟ رشوت لیکر تو لوگ خون تک چھپا جاتے ہیں وہ میرا امرود ہی ہضم کر جائے گا۔ امرود پیسے کے پانچ والے تھے جو گیا کہ باپ کو بھی نصیب نہ ہونگے۔ یہ سراسر بے انصافی تھی۔

    گیا نے مجھے اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ "میرا داؤں دیکر جاؤ، امرود سمرود میں نہیں جانتا۔"

    مجھے انصاف کا زور تھا، میں ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہتا تھا وہ مجھے جانے نہ دیتا تھا، میں نے گالی دی، اس نے اس سے بھی سخت گالی دی اور گالی ہی نہیں دی، ایک چانٹا بھی جما دیا۔ میں نے اسے دانت کانٹ لیا، اس نے میری پیٹھ پر ڈنڈا جما دیا۔ میں رونے لگا، گیا میرے اس ہتھیار کا مقابلہ نہ کر سکا، بھاگا۔ میں نے فوراً آنسو پونچھ ڈالے، ڈنڈے کی چوٹ بھول گیا اور ہنستا ہوا گھر جا پہنچا۔ میں تھانے دار کا لڑکا ایک نیچ ذات کے لونڈے کے ہاتھوں پٹ گیا۔ یہ مجھے اس وقت بھی بے عزتی کا باعث معلوم ہوا لیکن گھر میں کسی سے شکایت نہ کی۔

    ان ہی دنوں والد صاحب کا وہاں سے تبادلہ ہو گیا، نئی دنیا دیکھنے کی خوشی میں ایسا پھولا کہ اپنے ہمجولیوں سے جدا ہو جانے کا بالکل افسوس نہ ہوا۔ والد صاحب افسوس کرتے تھے، یہ بڑی آمدنی کی جگہ تھی، اماں جی بھی بہت افسوس کرتی تھیں، یہاں سب چیزیں سستی تھیں اور محلے کی عورتوں سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ لیکن میں مارے خوشی کے پھولا نہ سماتا تھا، لڑکوں سے شیخی بگھارتا تھا، وہاں ایسے گھر تھوڑے ہی ہیں، ایسے ایسے اونچے مکان ہیں کہ آسمان سے باتیں کرتے ہیں، وہاں کے انگریزی اسکول میں کوئی ماسٹر لڑکوں کو پیٹے تو قید ہو جائے۔ میرے دوستوں کی حیرت سے پھیلی ہوئی آنکھیں اور متعجب چہرے صاف بتلا رہے تھے کہ میں انکی نگاہ میں کتنا اونچا اٹھ گیا ہوں۔ بچوں میں جھوٹ کو سچ بنا لینے کی وہ طاقت ہوتی ہے جسے ہم جو سچ کو جھوٹ بنا دیتے ہیں، نہیں سمجھ سکتے۔ دوست کہہ رہے تھے، "تم خوش قسمت ہو بھائی، جاؤ، ہمیں تو اسی گاؤں میں جینا بھی ہے اور مرنا بھی۔"

    بیس سال گزر گئے ہیں، انجینری پاس کی اور کسی ضلع کا دورہ کرتا ہوا اسی قصبے میں پہنچا اور ڈاک بنگلے میں ٹھہرا۔ اس جگہ کو دیکھتے ہی اس قدر دلکش اور شیریں یاد تازہ ہو کر اٹھی کہ میں نے چھڑی اٹھائی اور قصبے کی سیر کو نکلا۔ آنکھیں کسی پیاسے مسافر کی طرح بچپن کے ان مقامات کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھیں جن کے ساتھ کتنی ہی یادگاریں وابستہ تھیں لیکن اس مانوس نام کے علاوہ وہاں کوئی شناسا نہ ملا۔ جہاں کھنڈر تھا وہاں پکے مکانات کھڑے تھے، جہاں برگد کا پرانا درخت تھا وہاں اب ایک خوبصورت باغیچہ تھا، اس جگہ کی کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ اسکے نام و نشان کا علم نہ ہوتا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکتا تھا۔ وہ پرانی یادگاریں باہیں پھیلا پھیلا کر اپنے پرانے دوستوں کے گلے لپٹنے کے لئے بے قرار ہو رہی تھیں مگر دنیا بدل گئی تھی، جی چاہتا تھا کہ اس زمین نے لپٹ کر روؤں اور کہوں "تم مجھے بھول گئیں لیکن میرے دل میں تمھاری یاد تازہ ہے۔"

    اچانک ایک کھلی جگہ میں، میں نے دو تین لڑکوں کو گلی ڈنڈا کھیلتے دیکھا، ایک لمحے کے لئے میں اپنے آپ کو بھول گیا، بھول گیا کہ میں ایک اونچا افسر ہوں، صاحبی ٹھاٹھ ہیں۔ رعب اور اختیار کے لباس میں جا کر ایک لڑکے سے پوچھا۔ "کیوں بیٹے یہاں کوئی گیا نام کا آدمی رہتا ہے؟"

    ایک لڑکے نے گلی ڈنڈا سمیٹ کر سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ "کون گیا، گیا چمار؟"

    میں نے یونہی کہا۔ "ہاں ہاں وہی، گیا نام کا کوئی آدمی ہے تو شاید وہی ہو۔"

    "ہاں ہے تو۔"

    "ذرا اسے بلا سکتے ہو؟"

    لڑکا دوڑا ہوا گیا اور جلد ایک پانچ ہاتھ کے کالے دیو کو ساتھ لیے آتا دکھائی دیا، میں نے دور ہی سے پہچان لیا۔ اسکی طرف لپکنا چاہتا ہی تھا کہ اسکے گلے لپٹ جاؤں مگر کچھ سوچ کر رہ گیا۔ بولا۔

    "کہو، مجھے پہچانتے ہو؟"

    گیا نے جھک کر سلام کیا۔ "ہاں مالک بھلا پہچانوں گا نہیں؟ آپ مزے میں رہے؟"

    "بہت مزے میں، تم اپنی کہو؟"

    "ڈپٹی صاحب کا سائیس ہوں۔"

    "ماتا، موہن، درگا، یہ سب کہاں ہیں، کچھ خبر ہے؟"

    "ماتا تو مر گیا، موہن اور درگا دونوں ڈاکیے ہو گئے ہیں، آپ؟"

    "میں ضلع کا انجینیئر ہوں۔"

    "سرکار تو پہلے ہی بڑے جہین تھے۔"

    "اب گلی ڈنڈا کھیلتے ہو؟"

    گیا نے میری طرف سوال کی آنکھوں سے دیکھا۔ "گلی ڈنڈا کیا کھیلوں گا سرکار، اب تو پیٹ کے دھندے سے ہی چھٹی نہیں ملتی۔"

    "آؤ آج ہم تم کھیلیں، تم پدانا ہم پدیں گے۔ تمھارا ایک داؤں ہمارے اوپر ہے، وہ آج لے لو۔"

    گیا بڑی مشکل سے راضی ہوا، وہ ٹھہرا ٹکے کا مزدور، میں ایک بڑا افسر، میرا اور اسکا کیا جوڑ، بیچارہ جھینپ رہا تھا لیکن مجھے بھی کم جھینپ نہ تھی۔ اس لیے نہیں کہ میں گیا کے ساتھ کھیلنے جا رہا تھا بلکہ لوگ اس کھیل کو عجوبہ سمجھ کر اسکا تماشہ بنائیں گے اور اچھی خاصی بھیڑ لگ جائے گی۔ اس بھیڑ میں وہ لطف کہاں رہے گا لیکن کھیلے بغیر تو رہا نہیں جاتا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ دونوں بستی سے دور تنہائی میں جا کر کھیلیں، وہاں کون دیکھنے والا بیٹھا ہوگا۔ مزے سے کھیلیں گے اور بچپن کی اس مٹھائی کو خوب مزے لے کر کھائیں گے۔ میں گیا کو لیکر ڈاک بنگلے پر آیا اور موٹر میں بیٹھ کر دونوں میدان کی طرف چلے۔ ساتھ ایک کلھاڑی لے لی۔ میں متانت کے ساتھ یہ سب کچھ کر رہا تھا مگر گیا ابھی تک مذاق سمجھ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر خوشی اور ولولے کا کوئی نشان نہ تھا، شاید ہم دونوں میں جو فرق ہو گیا تھا وہ اسے سوچنے میں محو تھا۔

    میں نے پوچھا۔ "تمھیں کبھی ہماری یاد آئی تھی گیا؟ سچ کہنا۔"

    گیا جھینپتا ہوا بولا۔ "میں آپ کو کیا یاد کرتا حضور، کس لائق ہوں، قسمت میں کچھ دن آپ کے ساتھ کھیلنا لکھا تھا، نہیں تو میری کیا گنتی۔"

    میں نے کچھ اداس ہو کر کہا۔ "لیکن مجھے تمھاری یاد برابر آتی تھی، تمھارا وہ ڈنڈا جو تم نے تان کر جمایا تھا، یاد ہے نا۔"

    گیا نے شرماتے ہوئے کہا۔ "وہ لڑکپن تھا سرکار، اسکی یاد نہ لاؤ۔"

    "واہ، وہ میری ان دنوں کی سب سے رسیلی یاد ہے، تمھارے اس ڈنڈے میں جو رس تھا، وہ اب نہ عزت اور بڑائی میں پاتا ہوں نہ دولت میں، کچھ ایسی مٹھاس تھی اس میں کہ آج تک من میٹھا ہوتا رہتا ہے۔"

    اتنی دیر میں ہم بستی سے کوئی تین میل نکل آئے تھے، چاروں طرف سناٹا تھا، مغرب کی طرف سے کوسوں تک بھیم تال پھیلا ہوا تھا، جہاں آ کر ہم کسی وقت کنول کے پھول توڑنے جاتے تھے اور اسکے جھمکے بنا کر کانوں میں ڈال لیتے تھے۔ جون کی شام کیسر میں ڈوبی چلی آ رہی ہے، میں لپک کر ایک درخت پر چڑھ گیا اور ایک شاخ کاٹ لایا۔ جھٹ پٹ گلی ڈنڈا بن گیا، کھیل شروع ہو گیا۔ میں نے راب میں گلی رکھ کر اچھالی، گلی گیا کے سامنے سے نکل گئی، اس نے ہاتھ لپکایا جیسے مچھلی پکڑ رہا ہو، گلی اسکے پیچھے جا گری، یہ وہی گیا تھا جس کے ہاتھوں میں گلی جیسے آپ ہی آپ جا کر بیٹھ جاتی تھی، وہ اپنے داہنے بائیں کہیں ہو گلی اسکی ہتھیلی میں پہنچتی تھی، جیسے گلیوں پر اس نے جادو کر کے انہیں بس میں کر لیا۔ نئی گلی، پرانی گلی، چھوٹی گلی، بڑی گلی، نوک دار گلی، سبھی اس سے مل جاتی تھیں گویا اسکے ہاتھ میں کوئی مقناطیسی طاقت ہے جو گلیوں کو کھینچ لیتی ہے، لیکن آج گلی کو اس طرح سے محبت نہیں رہی۔ پھر تو میں نے پدانا شروع کیا، میں طرح طرح کے فریب کر رہا تھا، مشق کی کمی بے ایمانی سے پوری کر رہا تھا۔ داؤں پورا ہونے پر بھی ڈنڈا کھیلے جاتا تھا، حالانکہ قاعدے کی مطابق گیا کی باری آنی چاہیے تھی۔ گلی پر ہلکی چوٹ پڑتی اور وہ ذرا ہی دور گرتی تو میں لپک کر اسے خود ہی اٹھا لاتا اور دوبارہ ٹل لگاتا۔ گیا یہ ساری بے قاعدگیاں دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ بولتا تھا، گویا اسے وہ تمام قاعدے قانون بھول گئے ہوں۔ اسکا نشانہ کتنا بے خطا تھا، گلی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اسکا کام تھا ڈنڈے سے ٹکرا جانا لیکن آج وہ گلی ڈنڈے میں لگتی ہی نہیں، کبھی داہنے جاتی تھی کبھی بائیں کبھی آگے کبھی پیچھے۔

    آدھ گھنٹہ پدانے کے بعد ایک بار گلی ڈنڈے میں آ لگی، میں نے دھاندلی کی۔

    "گلی ڈنڈے میں نہیں لگی، پاس سے گئی لیکن لگی نہیں۔"

    گیا نے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا۔ "نہ لگی ہوگی۔"

    "ڈنڈے میں لگتی تو کیا میں بے ایمانی کرتا۔"

    "نہیں بھیا، تم بھلا بے ایمانی کرو گے۔"

    بچپن میں مجال تھی کہ میں ایسا گھپلا کر کے بچتا، یہی گیا میری گردن پر چڑھ بیٹھتا لیکن آج میں اسے کتنی آسانی سے دھوکا دیئے چلا جاتا تھا، گدھا ہے ساری باتیں بھول گیا۔

    اچانک گلی ڈنڈے میں لگی اور اتنے زور سے لگی جیسے بندوق چھوٹی ہو، اس ثبوت کے مقابل اب کسی طرح کے فریب چلانے کا مجھے اس وقت بھی حوصلہ نہ ہو سکا لیکن کیوں نہ ایک بار سچ کو جھوٹ بنانے کی کوشش کروں، میرا حرج ہی کیا ہے؟ مان گیا تو واہ واہ ورنہ دو چار ہاتھ پدنا ہی پڑے گا۔ اندھیرے کا بہانہ کر کے گلا چھڑا لوں گا پھر کون دواؤں دینے آتا ہے۔

    گیا نے فاتحانہ انداز سے کہا۔ "لگ گئی، لگ گئی، ٹن سے بولی۔"

    میں نے انجان بننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ "تم نے لگتے ہوئے دیکھا، میں نے تو نہیں دیکھا۔"

    "ٹن سے بولی ہے سرکار۔"

    "اور جو کسی اینٹ میں لگ گئی ہو۔"

    میرے منہ سے یہ فقرہ اس وقت کیسے نکل گیا، اس پر مجھے خود حیرت ہے۔ اس سچائی کا جھٹلانا ایسا ہی تھا جیسے دن کو رات بتانا، ہم دونوں نے گلی کو ڈنڈے میں زور سے لگتے دیکھا تھا، لیکن گیا نے میرا کہا مان لیا۔

    "ہاں سرکار، کسی اینٹ میں لگی ہوگی، ڈنڈے میں لگتی تو اتنی آواز نہ آتی۔"

    میں نے پھر پدانا شروع کیا لیکن اس قدر صاف اور صریح دھوکا دینے کے بعد گیا کی سادگی پر مجھے رحم آنے لگا، اس لیے جب تیسری بار گلی ڈنڈے میں لگی تو میں نے بڑی فراخدلی سے داؤں دینا طے کر لیا۔

    گیا نے کہا۔ "اب تو اندھیرا ہو گیا ہے، بھیا کل پر رکھو۔"

    میں نے سوچا کل بہت سا وقت ہوگا، نہ جانے کتنی دیر پدائے اس لئے اسی وقت معاملہ صاف کر لینا اچھا ہوگا۔ "نہیں نہیں بہت اجالا ہے تم اپنا داؤں لے لو۔"

    "گلی سوجھے گی نہیں۔"

    "کچھ پرواہ نہیں۔"

    گیا نے پدانا شروع کیا لیکن اسے بالکل مشق نہ تھی، اس نے دوبار ٹل لگانے کا ارادہ کیا لیکن دونوں بار چوک گیا۔ ایک منٹ سے کم میں وہ اپنا داؤں پورا کر چکا، بیچارہ گھنٹہ بھر پدا لیکن ایک منٹ ہی میں اپنا داؤں کھو بیٹھا۔ میں نے اپنے دل کی وسعت کا ثبوت دیا۔ "ایک داؤں اور لے لو، تم تو پہلے ہی ہاتھ میں ہیچ ہو گئے۔"

    "نہیں بھیا، اب اندھیرا ہو گیا ہے۔"

    "تمھاری مشق چھوٹ گئی، کبھی کھیلتے نہیں ہو۔"

    "کھیلنے کا وقت ہی کہاں ملتا ہے بھیا۔"

    ہم دونوں موٹر پر جا بیٹھے اور چراغ جلتے جلتے پڑاؤ پر پہنچ گئے۔

    گیا چلتے چلتے بولا۔ "کل گلی ڈنڈا ہوگا، سبھی پرانے کھلاڑی کھیلیں گے، تم بھی آؤ گے، جب تمھیں فرصت ہو سبھی کھلاڑیوں کو بلا لوں۔"

    میں نے شام کا وقت دیا اور دوسرے دن میچ دیکھنے گیا۔ کوئی دس آدمیوں کی منڈلی تھی، کئی لڑکپن کے ساتھی نکلے مگر بیشتر نوجوان تھے جنہیں میں پہچان نہ سکا۔ کھیل شروع ہوا، میں موٹر پر بیٹھا تماشا دیکھنے لگا، آج گیا کا کھیل اور اسکی کرامات دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ وہ ٹل لگاتا تو گلی آسمان سے باتیں کرتی، کل کی وہ جھجک، وہ ہچکچاہٹ وہ بے دلی آج نہ تھی۔ لڑکپن کی جو بات تھی آج اس نے اسے کمال معراج تک پہنچا دیا۔ کہیں کل اس نے مجھے اس طرح پدایا ہوتا تو میں ضرور رونے لگتا۔ اسکے ڈنڈے کی چوٹ کھا کر گلی دو سو گز کی خبر لاتی۔

Don't Forget To Join With Our Community
×
+Get this at APNI EARNING
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Enter your email address:

Delivered by FeedBurner

Blog Archive

Popular Posts